بنگلہ دیش نے شیخ حسینہ کے مقرر کردہ سفیروں کوواپس بلانا شروع کردیا

ڈھاکہ، 17/ اگست (ایس او نیوز /ایجنسی) بنگلہ دیش میں  محمد یونس کی سربراہی میں  قائم کی گئی کارگزار حکومت نے تیزی سے کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ حکومت کے مشیر اعلیٰ محمد یونس نے جمعہ کو اپنی مشاورتی کونسل میں  توسیع کرتے ہوئے جہاں  مزید 4 مشیروں کو شامل کیا وہیں شیخ  حسینہ کے دور میں مختلف ممالک میں بھیجے گئے سفیروں کو واپس بلانا بھی شروع کر دیا ہے۔ ا س کے تحت امریکہ، روس، جرمنی، جاپان، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اور مالدیپ میں تعینات بنگلہ دیشی سفیروں  کو فوری طور پر وطن لوٹنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ نوبیل امن انعام یافتہ محمد یونس کی قیادت والی عبوری حکومت کے ذریعہ اسے اہم انتظامی رد و بدل کےطور پر دیکھاجارہاہے۔ 

 بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے واشنگٹن میں تعینات سفیر محمد عمران، ماسکو میں تعینات سفیر قمر الحسن، ریاض میں تعینات جاوید پٹواری، ٹوکیو میں سےشہاب الدین احمد، برلن سے مشرف حسین بھویاں، ابوظہبی میں تعینات سفیر ابو ظفر، ابوظہبی سے ہائی کمشنر عزیرالاسلام اور مالے میں سے ہائی کمشنر ابوالکلام آزاد کو واپس آنے کیلئے الگ الگ نوٹس بھیجے ہیں۔ سفیروں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے فوری طور پر دستبردار ہو جائیں اور دارالحکومت ڈھاکہ میں ذاتی طور پر رپورٹ کریں۔ 

اس کے ساتھ ہی شیخ حسینہ کے خلاف جمعہ کو قتل کا ایک اور مقدمہ درج کرلیاگیا۔ ملک سےان کے فرار ہونے کے بعد ان کے خلاف درج ہونےو الے قتل، نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم سے متعلق مقدما ت میں  یہ ایک اور اضافہ ہے۔ ایک ٹیچر کے قتل کے سلسلے میں  ددرج کئے گئے اس مقدمہ میں  شیخ  حسینہ کے علاوہ بوگورہ علاقے میں  عوامی لیگ کے جنرل سیکریٹری عبید القادر کو بھی ملزم بنایاگیاہے۔ بوگورہ صدر پولیس اسٹیشن میں درج کئے گئے اس مقدمہ میں  شیخ  حسینہ کی پارٹی کے99 لیڈروں اور مقامی کارکنوں  کو ماخوذ کیاگیاہے۔ الزام ہے کہ شیخ حسینہ کی حکومت کے خلاف ملک کیر مظاہروں کے بیچ بوگورہ کے سات ماتا علاقے میں بھی طلبہ کا احتجاج جاری تھا۔ اس احتجاج میں   35سالہ ٹیچر سلیم حسین بھی شامل تھے۔ شیخ حسینہ کی پارٹی کے لیڈروں  اور کارکنوں  نے ۴؍اگست کو یعنی شیخ حسینہ کے استعفیٰ اور ملک سے فرار ہونے سے ایک روز قبل حملہ کردیا۔ اس دوران حملہ آوروں  نے تیز دھار دار ہتھیاروں سے سلیم حسین کاقتل کر دیا۔ شکایت کنندہ جو مقتول کا بھائی ہے، کا الزام ہے کہ پارٹی کارکنوں  کو ان کے بھائی کو قتل کرنے کا حکم شیخ حسینہ اور پارٹی کی مقامی اکائی کے جنرل سیکریٹری کی جانب سے ملاتھا۔ 

  شیخ حسینہ اوران کی پارٹی کے خلاف ہر روز نئے مقدمات درج ہورہے ہیں۔ 14 اگست کو ایک وکیل کے 2015میں ’جبری لاپتہ ‘کئے جانے کا ایک معاملہ سابق وزیراعظم اوران کے ساتھیوں جن میں  سابق وزیر اور کابینہ کے اراکین شامل ہیں، کے خلاف درج کیا گیا ہے۔ گزشتہ ماہ کے مظاہروں  کے دوران پرچون کی دکان چلانے والے ایک شخص کے قتل کے معاملے میں  بھی شیخ حسینہ اوران کی پارٹی کے لیڈروں   کو ماخوذ کیاگیاہے۔ یہ مقدمہ13 اگست کو درج کیا گیا۔ بنگلہ دیش میں  مظاہروں  کے دوران 230 افراد ہلاک ہوئے۔ 

 بنگلہ دیش سرکار نے شیخ حسینہ حکومت میں انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی کے الزامات کی جانچ ’’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل ایجنسی‘‘ سے کروانے کافیصلہ کیا ہے۔ ٹربیونل نے شکایت ملنے کے بعد اپنی کارروائی شروع کردی ہے۔ بنگلہ دیشی میڈیا کے مطابق اس سلسلے میں  درخواست صائم احمد نامی ایک طالب علم کے والد نے دی ہے۔ صائم ۵؍اگست کو حسینہ واجد کے خلاف مظاہرے کے دوران پولیس کی فائرنگ سے جاں بحق ہو گیا تھا، مقدمے میں سابق بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد اور سابق وزراء کو نامزد کیا گیا ہے۔ 

اس بیچ عبوری حکومت کے مشیر اعلیٰ محمد یونس نے جمعہ کو اپنی مشاورتی کونسل میں  توسیع کرتے ہوئے ماہر معاشیات وجیہ الدین محمود، سابق کابینہ سیکریٹری علی امام مجومدار، سابق سیکریٹری برائے توانائی محمد فو ز الکبیر خان اور لیفٹیننٹ جنرل جہانگیر عالم چودھری کو شامل کرلیا ہے۔ عبوری حکومت میں   وزیروں  کیلئے ’’مشیر‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جارہی ہے۔ ان نئی تقرریوں  کے ساتھ ہی مشاورتی کونسل کے اراکین کی تعداد بڑھ کر ۲۱؍ ہوگئی ہے۔ 

اس پر پڑھیں ساحل آن لائن Header Banner