برطانیہ: نسل پرستانہ فساد نے92 فیصد مسلمانوں میں احساس عدم تحفظ پیدا کر دیا

لندن،  18/ اگست (ایس او نیوز /ایجنسی ) انڈپنڈنٹ کی رپورٹ کے مطابق 5 اور 6 اگست کو ایک کمیشن کے ذریعے کی گئی رائے شماری میں یہ بات سامنے آئی کہ ہر چھ میں سے ایک فرد نے نسل پرستانہ حملوں کا سامنا کیا ہے۔ انتہائی دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے ذریعے برطانیہ میں مسلمانوں کے خلاف فساد برپا کیا گیا تھا جس کے بعد بڑے پیمانے پر گرفتاریاں عمل میں آئی تھیں۔

یہ رائے شماری شہزادہ چارلس کے مشیر کے انتباہ کے نتیجے میں عمل میں آی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ برطانیہ بڑے پیمانے پر ذہین اور ہنر مند مسلمانوں کی ملک سے منتقلی سے متاثر ہے۔ حارث بخاری نے کہا کہ ملک بھر میں مسلمانوں میں یہ تاثر پھیل گیا ہے کہ برطانیہ اب دیگر ثقافت و تہذیب کے حامل افراد کیلئے موزوں خطہ نہیں رہ گیا۔ کئی ہنر مند افراد نقل مکانی کر رہے ہیں اور کئی افراد اس بابت غور کر رہے ہیں۔

1519افراد پر کی گئی اس رائے شماری میں مختلف پس منظر کے حامل اشخاص سے رابطہ کیا گیا۔ جس کے مطابق مسلمانوں کو اس فساد کے بعد زبانی حملوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔جس میں 16فیصد کو آن لائن اور 4 فیصد کو جسمانی حملوں سے نبرد آزما ہونا پڑا ہے۔مسلم رائے شماری کے بانی دوراسات نے کہا ایسے کئی معاملات ہمارے سامنے آئے جن میں باحجاب خواتین خود کو غیر محفوظ خیال کر رہی ہیں۔ 

جولائی میں برپا ہونے اس فساد میں مسلمانوں کی مساجد اور ان کے کاروبار اور ہوٹل کو پورے ملک میں نشانہ بنایا گیا۔دوراسات کا کہنا ہے کہ یہ باتیں اتنی عام ہو گئی ہیں کہ اب مسلمانوں کے خلاف حملوں پر کسی کو تعجب نہیں ہوتا۔ وزیر اعظم کئیراسٹارمر نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس نفرت کا مقابلہ کرنے کیلئے مساجد کی حفاظت کیلئے ملک بھر میں مزید اقدام کریں گے۔ایک اور تنظیم ٹیل ماما نے بھی مشاہدہ کیا ہے کہ نسل پرست فساد کے دوران اور بعد میں اسلام مخالف واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

اس تنظیم نے یہ بھی بتایا کہ مسلمان خواتین کو500سے زیادہ قتل کرنے کی دھمکیاں درج کی جا چکی ہیں۔تنظیم کے ڈائرکٹر ایمان عطا نے ٹائمس کو بتایا کہ اسلامو فوبیا میں اضافہ کے سبب ملک چھوڑنا اب کوئی اجنبی بات نہیں ہے۔ اس کے معنی ہیں کہ ہم بہترین ڈاکٹر، نرس، اکائونٹنٹ، طبی خدمت گار سے محروم ہو جائیں گے۔بخاری جو ٹونی بلئیر سے لے کر تمام وزیر اعظم کے ساتھ نسلی تعلقات پر کام کر چکے ہیں، کہا کہ ملک بھر میں فساد میں شامل 50 افراد ایسے ہیں جن کی عمر 18 سال سے کم ہے، ان پر تشدد کا معاملہ درج کیا گیا ہے۔کئی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ والدین اپنے کم عمر بچوں کے ساتھ نسل پرستانہ نعرے لگا رہے ہیں۔لیکن ان بچوں کو مورد الزام ٹہرانا جائز نہیں ہے کیونکہ کوئی بھی بچہ پیدائشی نسل پرست نہیں ہوتا۔

بخاری نے ایک قومی سروس کی شروعات کی وکالت کی جس میں مختلف پس منظر اور خیالات کے نوجوان ایک دوسرے کے ساتھ تعامل کر سکیں تاکہ اس باڑ کو توڑا جاسکے۔انہوں نے کہا ’’ اگر ہم ایک نوجونوں کی ایسی نسل تیار کرنے میں کامیاب ہو گئے جو بنیادی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ اتفاق نہ رکھتے ہوں، لیکن ایک ساتھ کام کرتے ہوں، ایک دوسرے سے نفرت نہ کرتے ہوں، ایک دوسرے کو شکار نہ بناتے ہوں، ایک دوسرے کی تذلیل نہ کرتے ہوں،ساتھ مل کر کچھ مثبت کام کرتے ہوں تو میرے خیال میں بین المذاہب معاشرہ قائم ہو سکتا ہے۔  

اس پر پڑھیں ساحل آن لائن Header Banner