غزہ جنگ: لاکھوں فلسطینی شہری بھکمری سے نبردآزما، خوراک کے وسائل محدود

یروشلم ، 30/ جون (ایس او نیوز /ایجنسی) غزہ پٹی میں جاری اسرائیلی حملے کو ۸؍ ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے اور غزہ کے شہری بھکمری کا سامنا کررہے ہیں۔ بھوکے فلسطینیوں کو رفاہی تنظیموں کی جانب سے معمولی مقدار میں پکا کھانا اور پلاسٹک کنٹینر میں پینے کے لائق پانی حاصل کرنے کیلئے کئی گھنٹوں تک قطار میں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اسرائیلی بمباری سے بچنے کیلئے فلسطینی اسکولوں میں پناہ حاصل کررہے ہیں۔ اسکولوں اور سڑکوں کو پناہ گاہوں اور رفیوجی مراکز میں تبدیل کیاگیا ہے جہاں بمباری میں بے گھر ہوچکے ہزاروں فلسطینی پناہ گزین ہیں۔ ان مراکز پر بھی رسد کا ذخیرہ ختم ہوچکا ہے۔ 

جنوبی غزہ کے شہر خان یونس کے شہری عبدل رحمٰن خدورہ نے میڈیا کو بتایا کہ ’’یہاں پانی اور کھانا میسر نہیں ہے۔ ہمیں پانی حاصل کرنے کیلئے طویل مسافت تک سفر کرنا پڑتا ہے، اس کے باوجود پانی نہیں ملتا۔اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ پانی حاصل کرنے آئی عنایت ابو حمید نے چہرے سے پسینہ صاف کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں پانی تلاش کرنے کیلئے ۴؍ سے ۶؍ گھنٹہ  انتظار کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے سڑک پر کھڑے ایک پانی کے ٹینکر سے پلاسٹک کے تین بڑے کنٹینر میں پانی لیا۔

عالمی سطح پر اقدامات اور کوششوں کے باوجود، عالمی بھکمری مانیٹر نامی ادارہ نے اس ہفتہ جاری کردہ اپنی رپورٹ میں بتایا کہ غزہ میں بھکمری کا خطرہ تیزی سے بڑھتا جارہا ہے۔ وہاں کی تقریباً۲۰؍ فیصد آبادی، تباہ کن حد تک خوراک کی کمی کا شکار ہے۔ فلسطینیوں کیلئے یہ حالات کسی قیامت سے کم نہیں ہے۔ شمالی غزہ کے کمال عدوان اسپتال نے بدھ کوبتایا کہ حال ہی میں مناسب غذائیت کی کمی اور پانی نہ ملنے کی وجہ سے ایک بچے نے دم توڑ دیا۔ 

خان یونس میں اقوام متحدہ کے ذریعے چلائے جارہے ایک اسکول کو بے گھر افراد کیلئے پناہ گزین کیمپ میں تبدیل کیا گیا ہے۔ میڈیا کے نمائندہ نے وہاں ام فیصل ابو نقرہ سے بات کی جو اپنے ۶؍بچوں کیلئے کھانا تیار کررہی تھیں جو ان کیلئے ناکافی تھا۔ ام فیصل نے ایک پیالے میں ٹماٹر کو کاٹا، دال کو ایک پین پر پکایا اور اس میں موسل سے پیسے ہوئے دیگر اجزاء ملائے۔ ان کی چھوٹی بچیاں پاس میں سوئی ہوئی تھی۔

ام فیصل کے شوہر نے ایک بچی کو بوتل کے ذریعے مائع دال کھلائی۔ ام فیصل نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ اگر رفاہی کچن کے افراد صرف ایک روز کیلئے بھی ناغہ کرلیں تو ہم سوچ نہیں سکتے کہ ہم کیا کھائیں گے اور وہ دن کیسے گُزرے گا؟ ام فیصل کے مطابق انہیں رفاہی کچن تنظیم کی جانب سے دال فراہم کی جاتی ہے۔ 

غزہ میں خوراک کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہے۔ جب سے جنگ شروع ہوئی ہے، ام فیصل کے  خاندان میں آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ جنگ سے قبل کے حالات سے موازنہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھکمری اور محرومی کے معاملے میں ہم اپنی زندگی کے بدترین دور سے گزر رہے ہیں۔ ام فیصل نے بتایا کہ اسرائیلی حملے اور جنگ سے قبل وہ اپنے بچوں کو کھانا کھلانے اور جیب خرچ تک دینے کی استطاعت رکھتے تھے۔ 

آج ہمارے بچے ہماری طرف آس کی نظروں سے دیکھتے ہیں تو ہم خون کے آنسو روتے ہیں کیونکہ ہم ان کے بنیادی حق اور سادہ سی ضرورت بھی پوری نہیں کر پارہے ہیں۔خان یونس میں رفاہی کچن تنظیم کے اہلکار، ملبہ سے لدی اور لوگوں کے ہجوم کے درمیان سڑکوں پر اپنی گدھا گاڑی کے ذریعے خوراک اقوام متحدہ کی اسکولوں تک لے جاتے ہیں جو اب پناہ گزینوں سے بھرچکی ہیں۔ راستے میں انہوں نے پیلی دال سے بھری دو بوریوں کو قطار میں کھڑے بچوں میں تقسیم کیا جو ہاتھوں میں ایک چھوٹا سا پین نما برتن لئے تھوڑے سے اناج کے منتظر تھے تاکہ ان کے گھر کا چولہا جلے اور پیٹ کی آگ بجھے۔ 

غزہ پٹی کی وزارت صحت کے اعدادوشمار کے مطابق اسرائیلی فوج کی غزہ میں جاری فوجی کارروائیوں میں اب تک ۳۷؍ ہزار، ۷۶۵؍سے زائد فلسطینی شہری شہید ہوچکے ہیں اور غزہ کی نصف سے زائد آبادی بے گھر ہوچکی ہے۔ امدادی تنظیمیں اصرار کررہی ہے کہ انہیں غزہ میں امداد رسانی کیلئے اسرائیل کی جانب سے مزید تعاون درکار ہے۔اسرائیل نے اس الزام سے انکار کیا ہے کہ اس کی وجہ سے غزہ میں بھکمری کے حالات پیدا ہوئے ہیں۔ اسرائیل نے، خوراک کی تقسیم کاری میں رکاوٹوں کیلئے امدادی ایجنسیوں کے طریقہ کار اور حماس کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ تاہم، حماس نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ 

اس پر پڑھیں ساحل آن لائن Header Banner