اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) وفاقی حکومت کی طرف سے پاکستانیوں کی آن لائن سرگرمیوں کی نگرانی کے لیے اقدامات تیز تر کر دیئے گئے ہیں اور ایک انٹرنیٹ فائر وال نصب کی جا رہی ہے، جس کے ذریعے انٹرنیٹ پر ہر طرح کی سرگرمی پر نظر رکھنا ممکن ہو سکے گا۔ تاہم اس حوالے سے جاسوسی کے سافٹ ویئر بنانے والی کمپنیوں اور ان سافٹ ویئرز کو استعمال کرنے والے ممالک کا ڈیٹا ٹریک کرنے والے ادارے ”سرویلنس واچ“(Surveillance Watch)نے ایک چشم کشا انکشاف کیا ہے۔
نیوز ویب سائٹ ’پروپاکستانی‘ کے مطابق سرویلنس واچ کی طرف سے انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان جاسوسی کے سافٹ ویئرز اور سسٹمز 15سے زائد کمپنیوں سے حاصل کر رہا ہے اور ان کمپنیوں کا تعلق مختلف ممالک سے ہے، جن میں امریکہ، چین اور حتیٰ کہ اسرائیل بھی شامل ہے۔
رپورٹ کے مطابق سرویلنس واچ دراصل ایک انٹریکٹو میپ (نقشہ) ہے جو اس صنعت سے وابستہ کمپنیوں اور ان کی مصنوعات استعمال کرنے والے ممالک کے ڈیٹا کی ٹریکنگ کا حامل ہے۔ یہ ادارہ شہریوں کی پرائیویسی کے حامی افراد کی طرف سے قائم کیا گیا ہے۔ ان میں سے اکثر ایسے لوگ ہیں جنہیں ذاتی طور پر جاسوسی کی ٹیکنالوجی سے نقصان پہنچا۔
اس ادارے کی ویب سائٹ پر ’معلوم اہداف‘ (Known Targets) کی فہرست میں آپ پاکستان کو تلاش کر کے معلوم کر سکتے ہیں کہ پاکستان کو کون کون سی کمپنیاں سپائی ویئر ٹیکنالوجی فراہم کر رہی ہیں۔ان میں اسرائیل کی بدنام زمانہ ’کیو سائبر ٹیکنالوجیز سارل‘ شامل ہے جو این ایس او گروپ کی مالک کمپنی ہے۔
یہ کمپنی جاسوسی اور ہیکنگ کے جدید ترین ٹولز بناتی اور فروخت کرتی ہے جن میں سے ایک کا نام ’پیگاسس‘ ہے۔ پاکستان کو جاسوسی کی ٹیکنالوجی فراہم کرنے والی دیگر کمپنیوں میں پریڈیٹر، گاماگروپ، آئی۔ سون و دیگر شامل ہیں۔ اسرائیلی کمپنی کا ہیکنگ اور جاسوسی کا سافٹ ویئر پیگاسس حکومتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فروخت کیا جاتا ہے۔
سرویلنس واچ کے مطابق یہ کمپنیاں چہرے کی شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی، سمارٹ فون کے لیے سپائی ویئرز، ویڈیو کے ذریعے نگرانی، فون کالز کے لیے وائس ٹو ٹیکسٹ ٹرانسکرپشن سمیت دیگر متعدد سروسز کے حامل ٹولز اور ٹیکنالوجیز تیار کرتی ہیں۔