وزیراعظم شہباز شریف نے دہشت گردی کرنے والوں کے خلاف کارروائی ترقی کے لیے ناگزیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں اور پاکستان دشمنوں سے بات چیت نہیں ہو گی، امن کی خاطر دی گئی شہدا کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی، آرمی چیف اور سیاسی قیادت اس خطرناک مرحلے کو عبور کریں گے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کوئٹہ میں اپیکس کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قابل افسران کا اضلاع اور تحصیل میں ہونا ضروری ہے لیکن بدقسمتی سے افسران بلوچستان آنے سے کتراتے ہیں اور بہانے بناتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے ہم نے ایک پالیسی بنائی ہے، اس پالیسی پر عمل ہوگا تو پھر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، ورنہ وہ پالیسی فیل ہوجائے گی، اگر ہم اس پالیسی پر ایک پیج پر ہیں تو اس پالیسی کا یہاں اعلان کرنا چاہتا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ 48 کامن ٹریننگ کے افسران کی بلوچستان میں تعیناتی کی جائے گی، 48 کامن گروپ کے آدھے افسران کی تعیناتی فوری طور پر کی جائے گی جو ایک سال کے لیے ہوگی۔
وزیراعظم نے کہا کہ 48 کامن کے باقی افسران کی تعیناتی 6 ماہ بعد ایک سال کے لیے کی جائے گی، تیسرے مرحلے میں 49 کامن گروپ کے آدھے افسران کی بلوچستان میں تعیناتی ایک سال کے لیے کی جائے گی اور چوتھے مرحلے میں ڈیڑھ سال بعد 49 گروپ کے بقیہ افسران کو ایک سال کے لیے تعیناتی کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے اور اس پر عمل درآمد ضروری ہے جب کہ ان افسران کو اضافی مراعات بھی دی جائے گی جس میں ان کے اہلخانہ سمیت ایئرٹکٹس بھی شامل ہیں اور انہیں ان کی سروس کے دوران ایکسٹرا پوائنٹس بھی دیے جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں سے رعایت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، پاکستانی پرچم کو سلام کرنے والوں سے مذاکرات کرنا فرض ہے، دہشت گردی کرنے والوں کے خلاف کارروائی ترقی کے لیے ناگزیرہے، دہشت گردوں، پاکستان دشمنوں سے کوئی ڈائیلاگ نہیں ہوگا۔
شہباز شریف نے کہا کہ دہشت گردوں کا خاتمہ ملک کی خوشحالی کے لئے ضروری ہے، دہشت گردوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملائیں گے، بلوچستان میں قیام امن کیلئے سب کو کردارادا کرنا ہوگا، دہشت گردوں کا صفایا کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ دشمن نہیں چاہتے کہ بلوچستان کی ترقی ہو، وہ نہیں چاہتے سی پیک کا منصوبہ چلے، وہ پاک چین دوستی میں رخنہ ڈالنا چاہتے ہیں، دھرنا دینے والوں کو خوشحالی کی فکر ہوتی تو گوادر بہترین منصوبہ ہے تاہم دہشت گردوں کے ناپاک عزائم خاک میں ملانا ہمارا فرض ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں 80 ہزار جانوں کی قربانی دیں، پاکستان معیشت کو اس جنگ سے اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔
اس سے قبل، وزیر اعظم بلوچستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے خلاف اس کی روک تھام کے سلسلے میں حکمت عملی طے کرنے کے لیے کوئٹہ میں جاری ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں اظہار کر رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی ترقی وخوشحالی کی راہ کی رکاوٹیں ختم کرنی ہیں، شہدا کا لہو ضائع نہیں جائےگا، آرمی چیف، سیاسی قیادت اس خطرناک مرحلے کو عبور کریں گے، بلوچستان میں قیام امن کے لیے سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
وزیراعظم نے کہا کہ 2018 کے بعد دہشتگردی دوبارہ سر اٹھار رہی ہے، ہم دہشتگردی کا سر کچل دیں گے، انشااللہ دہشتگردی کا خاتمہ کریں گے، ملک کی خوشحالی کے لیے دہشتگردی کا خاتمہ ضروری ہے۔
قبل ازیں بلوچستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے خلاف اس کی روک تھام کے سلسلے میں حکمت عملی طے کرنے کے لیے وزیراعظم شہباز شریف صوبائی دارالحکومت کوئٹہ پہنچے۔
اس موقع پر نائب وزیراعظم اسحٰق ڈار، وزیر داخلہ محسن نقوی، وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال، وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ اور وزیر تجارت جام کمال خان بھی وزیر اعظم کے ہمراہ موجود تھے۔
کوئٹہ ایئرپورٹ پر وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی، اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبد الخالق اچکزئی، صوبائی وزیر سی این ڈبلیو عبد الرحمٰن کھیتران، چیف سیکریٹری بلوچستان شکیل قادر، آئی جی پولیس اور دیگر اعلیٰ سرکاری حکام نے وزیر اعظم شہباز شریف کا استقبال کیا۔
دورہ کوئٹہ کے موقع پر وزیر اعظم کو بلوچستان میں جاری ترقیاتی منصوبوں سے متعلق بھی بریفنگ دی جائے گی۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے کے آخر میں بلوچستان میں عسکریت پسند گروپ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے ایک ہی دن میں موسیٰ خیل، مستونگ، بولان اور قلات میں مختلف واقعات میں 40 سے زائد افراد کو قتل کردیا تھا۔
ہفتے اور اتوار (24 اور 25 اگست)کی درمیانی رات میں نامعلوم مسلح افراد نے مستونگ، قلات، پسنی اور سنتسر میں لیویز اور پولیس تھانوں پر حملے کیے تھے، جس کے نتیجے میں متعدد اموات ہوئیں۔
سبی، پنجگور، مستونگ، تربت، بیلہ اور کوئٹہ میں دھماکوں اور دستی بم حملوں کی بھی اطلاعات موصول ہوئیں، حکام نے تصدیق کی تھی کہ حملہ آوروں نے مستونگ کے بائی پاس علاقے کے قریب پاکستان اور ایران کو ملانے والے ریلوے ٹریک کو دھماکے سے اڑا دیا۔