اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 31 اگست2024ء) چیئرمین نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) وسیم مختار نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پاور ڈویژن کو آگاہ کیا ہے کہ بجلی کی طلب مسلسل کم ہو رہی ہے۔کمیٹی کا اجلاس جمعہ کے روز محسن عزیز کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں ملک میں پاور سیکٹر کی موجودہ صورتحال اور ریگولیٹری پریکٹسز پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ چیئرمین نیپرا نے بتایا کہ اتھارٹی گرڈ میں مزید گنجائش بڑھانے کا ارادہ نہیں رکھتی ہے۔ کمیٹی ارکان نے نیپرا کی آزادی اور ٹیرف کے فیصلوں کو چیلنج کیا، سینیٹر شبلی فراز نے نیپرا کی حالیہ ٹیرف ایڈجسٹمنٹ پر سوال اٹھایا۔ انہوں نے استفسار کیا کہ کیا نیپرا نے بجلی کی قیمتوں میں متوقع 5 روپے کی بجائے 3 روپے کا اضافہ کیا ہے؟۔
(جاری ہے)
شبلی فراز نے گزشتہ دو سال کے دوران بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے شفافیت کا مطالبہ کیا اور ملک بھر میں بجلی کے منصوبوں پر تفصیلی رپورٹ فراہم کرنے پر زور دیا۔
وفاقی وزیرتوانائی (پاور ڈویژن) سردار اویس احمد خان لغاری نے دیامر بھاشا ڈیم سمیت انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) معاہدوں پر نظر ثانی کے لیے جاری کوششوں پر روشنی ڈالی۔انہوں نے خبردار کیا کہ دیامر بھاشا ڈیم سے پن بجلی کی لاگت زیادہ ہوگی، دیامر بھاشا ڈیم سے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔مزید برآں کمیٹی نے آئی پی پیز کی چھان بین کے لیے ٹاسک فورس پر بھی تبصرہ کیا، محمد علی رپورٹ کی سفارشات پر عمل کرتے ہوئے آئی پی پیز کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے لیے ٹاسک فورس قائم کی گئی ہے۔اس رپورٹ میں گرمی کے آڈٹ سمیت ایک تفصیلی مطالعہ تجویز کیا گیا ہے ، حالانکہ توجہ براہ راست آڈٹ کی بجائے ثالثی کی طرف منتقل ہوگئی ہے۔ مزید برآں کمیٹی نے لوڈ شیڈنگ اور منصوبوں کے اخراجات پر بھی بحث کی۔وفاقی وزیر نے لوڈ شیڈنگ کے مضمرات پر بھی تبادلہ خیال کیا اور سوال کیا کہ اگر لوڈ شیڈنگ جاری رہی تو 1875 میگاواٹ صلاحیت کی ضرورت ہے۔محسن عزیز نے بین الاقوامی معیار کے مقابلے میں پاکستان میں ہوا کے منصوبوں کی زیادہ لاگت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کا ازسرنو جائزہ لینے پر زور دیا کہ مقامی منصوبے زیادہ مہنگے کیوں ہیں۔مجموعی طور پر کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان کے توانائی کے شعبے کو درپیش اہم مسائل کی نشاندہی کی گئی جن میں ریگولیٹری چیلنجز سے لے کر بڑھتی ہوئی لاگت اور منصوبوں کی تشخیص شامل ہیں۔