اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 16 ستمبر 2024ء) انسانی حقوق پر اقوام متحدہ کے غیرجانبدار ماہرین نے کہا ہے کہ اسرائیل غزہ کی 23 لاکھ آبادی کی صاف پانی تک رسائی روکنے کے حربے سے جنگی ہتھیار کا کام لے رہا ہے۔
پینے کے صاف پانی اور صحت و صفائی کے حقوق پر اقوام متحدہ کے خصوصی اطلاع کار پیڈرو آروجو آگوڈو اور دیگر کا کہنا ہے کہ اس وقت غزہ میں ہر فرد کو روزانہ اوسطاً 4.7 لٹر پانی میسر ہے۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے قرار دیا ہے کہ ہنگامی حالات میں ہر فرد کو روزانہ کم از کم 15 لٹر پانی دستیاب ہونا چاہیے۔غزہ
میں ساحلی علاقے سے زیرزمین حاصل ہونے والا پانی ہی مقامی آبادی کی آبی ضروریات پوری کرنے کا واحد ذریعہ ہے لیکن اس ذخیرے میں شامل ہونے والے تازہ پانی کے مقابلے میں تین گنا زیادہ مقدار میں پانی نکالا جا رہا ہے۔(جاری ہے)
نتیجتاً یہ ذخیرہ سمندری پانی سے آلودہ ہونے لگا ہے۔اسرائیل
نے گندے پانی کی نکاسی کے پلانٹ چلانے کے لیے درکار 70 فیصد سازوسامان کی غزہ آمد پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ نتیجتاً علاقے میں نکاسی آب کا نظام حسب ضرورت کام نہیں کر رہا اور یہ پانی زمین میں جذب ہو کر صاف پانی کے ذخیرے کو بھی آلودہ کر رہا ہے۔پناہ گاہیں بیماریوں کا گڑھ
فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انرا) نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں جنگ سے تباہ حال لوگوں کی پناہ گاہیں بیماریوں کی آماجگاہ بن گئی ہیں جہاں ان کی صحت و زندگی مسلسل خطرے میں ہے۔
پناہ گاہوں میں گنجائش سے زیادہ آبادی، صاف پانی کی قلت اور صحت و صفائی کا نظام تباہ ہو جانے کے باعث لوگوں کو متعدی بیماریوں سے سنگین خطرات لاحق ہیں۔ خیمہ بستیوں میں پھیلی گندگی کے باعث حشرات الارض اور چوہوں کی بھرمار ہو گئی ہے۔
صحت و صفائی کے سامان کی قلت
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بتایا ہے کہ غزہ میں 75 گرام صابن کی قیمت 10 ڈالر تک پہنچ گئی ہے جبکہ شیمپو، کپڑے دھونے کا پاؤڈر (ڈیٹرجنٹ) اور ایسی دیگر چیزیں بازاروں میں دستیاب نہیں ہیں۔
ادارے کا کہنا ہے کہ صحت و صفائی کے سامان کی قلت کے باعث بچے، حاملہ خواتین اور کمزور جسمانی مدافعت کے حامل لوگ بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ اگر انہیں عام صابن ہی میسر ہو تو وہ اسہال، سانس کے مسائل، کھجلی اور دیگر جلدی مسائل سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ لوگوں کو بیماریوں سے تحفظ دینے کے لیے صابن اور صحت و صفائی کے بنیادی سامان پر مشتمل کم از کم پانچ ٹرک روزانہ غزہ میں لانے کی ضرورت ہے۔
سول سوسائٹی کا نقصان
انسانی حقوق پر اقوام متحدہ کی خصوصی اطلاع کار میری لالور اور دیگر نےکہا ہے کہ غزہ میں سول سوسائٹی کے کارکنوں کے لیے اسرائیلی فضائی اور زمینی حملوں کے بعد لوگوں کو محفوظ انداز میں مدد پہنچانے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔
حالیہ مہینوں میں 'فلسطینی مرکز برائے انسانی حقوق' کے عملے میں شامل متعدد افراد اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہوئے ہیں اور اس کے دفاتر تباہ کر دیے گئے ہیں۔
یہ غزہ میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی سب سے بڑی تنظیم ہے۔تنظیم کے ہلاک ہونے والے کارکنوں میں دو خواتین وکلا بھی شامل ہیں جن میں سے ایک اپنی دو سالہ بچی والدین اور چار بہن بھائیوں سمیت رفح میں اسرائیل کے فضائی حملے کا نشانہ بنیں جبکہ دوسری خاتون دیرالبلح میں اپنے خاندان کے 37 ارکان سمیت ہلاک ہو گئی تھیں۔
میری لالور کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ان خواتین، ان کے اہلخانہ اور بچوں کے لیے انصاف کی فراہمی کا بظاہر کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا جو ایک ہولناک المیہ ہے۔