پولیس توہین مذہب کے ملزم ڈاکٹر کے قتل کی ذمہ دار، حکومت سندھ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 ستمبر 2024ء) حکومت سندھ نے جمعرات کو کہا کہ پولیس نے صوبہ سندھ کے ضلع عمر کوٹ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر شاہ نواز کے قتل کی منصوبہ بندی کی تھی، جو توہین مذہب کے الزام میں پولیس حراست میں تھے۔ ڈاکٹر شاہ نواز نے گزشتہ ہفتے پولیس کی طرف سے اس یقین دہانی کے بعد خود کو میرپو خاص پولیس کے حوالے کر دیا تھا کہ انہیں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا موقع دیا جائے گا۔

سندھ: توہین مذہب کا ملزم ڈاکٹر مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک

پاکستان

میں توہین مذہب کے ملزم کی ہلاکت میں ملوث پولیس اہلکار معطل

صوبہ سندھ کے وزیر داخلہ ضیاالحسن نے جمعرات کو کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عمرکوٹ توہین مذہب کیس کے ملزم ڈاکٹر شاہ نواز کو جعلی پولیس مقابلے میں قتل کیا گیا۔

(جاری ہے)

ضیاالحسن نے کہا، "عمرکوٹ واقعے میں پولیس اہلکاروں پر جعلی مقابلے کا الزام تھا۔

میں نے احکامات دیے تھے کہ عمر کوٹ سانحے کی انکوائری جلد مکمل کریں۔ ہم ملوث افسران کے خلاف ایف آئی آر کا حکم دے رہے ہیں۔"

صوبائی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ انکوائری رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر شاہ نواز کی لاش پولیس کی موجودگی میں جلائی گئی، "پولیس نے جعلی مقابلہ کیا، ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس (ڈی آئی جی) اور ماتحت عملہ کسی نہ کسی صورت میں ملوث ہے۔

"

خیال رہے کہ پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ ڈاکٹر شاہ نواز فائرنگ کے تبادلے میں اس وقت ہلاک ہوئے جب انہوں نے ایک اور شخص کے ہمراہ موٹرسائیکل پر فرار ہونے کی کوشش کی۔ پولیس نے انہیں رکنے کا اشارہ کیا لیکن انہوں نے پولیس اہلکاروں کی ہدایات کو نظرانداز کیا، جس پر پولیس نے فائرنگ کر دی۔ پولیس کا کہنا تھا کہ موٹرسائیکل پر سوار دوسرا شخص فرار ہو گیا۔

توہین مذہب کے الزام میں قتل، ورثا نے پولیس اہلکار کو معاف کر دیا

توہین مذہب کے الزام پر قتل، ہجوم میں شامل 23 افراد گرفتار

ڈاکٹر

شاہ نواز کو گولی مار کر ہلاک کرنے کے چند گھنٹے بعد ان کی لاش ان کے خاندان کے حوالے کر دی گئی تھی لیکن مشتعل ہجوم نے ڈاکٹر نواز کے والد سے اسے چھین کر جلا دیا۔ اس سے ایک روز قبل عمرکوٹ میں ایک مشتعل ہجوم نے ڈاکٹر نواز کے کلینک کو بھی آگ لگا دی تھی۔

ڈاکٹر شاہ نواز کے والدین کا ردعمل

ڈاکٹر

شاہ نواز کے والد محمد صالح نے اپنے بیٹے کے قتل سے متعلق خاندان کے موقف کی حمایت پر حکومت کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ان کے بیٹے کے قاتلوں کو اسلامی قانون کے تحت انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔

انہوں نے کہا، "ہمارا صرف ایک مطالبہ ہے کہ وہ پولیس افسران جنہوں نے میرے بیٹے کا قتل کیا، انہیں بھی اسی طرح مارا جانا چاہیے۔

"

ڈاکٹر

نواز کی والدہ رحمت قنبر نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو فون پر بتایا کہ وہ خاندان کی مدد کے لیے تمام لوگوں کے مشکور ہیں، جنہوں نے ان کے بیٹے کو قتل کرنے پر اکسانے والے انتہا پسند علماء کی مذمت کی۔

انہوں نے کہا، "جنہوں نے میرے بیٹے کو قتل کیا انہیں جلد سزا ملنی چاہیے تاکہ دوسرے بھی سبق سیکھیں اور مستقبل میں کسی کا ماورائے عدالت قتل نہ ہو۔

"

انہوں نے مزید کہا کہ ان کا بیٹا تو اب ان کے پاس واپس نہیں آ سکتا لیکن وہ دوسرے والدین کے بچوں کو ان انتہا پسندوں کے ہاتھوں سے بچانا چاہتی ہیں۔

توہین مذہب ایک سنگین مسئلہ

گزشتہ ایک ہفتے میں پولیس کے ہاتھوں اس نوعیت کے قتل کا یہ دوسرا واقعہ تھا۔ یہ پہلا موقع ہے جب حکومتی سطح پر یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ یہ ہلاکت پولیس کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل کے مترادف ہے۔

اس واقعے سے چند ہی روز قبل جنوب مغربی صوبے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں توہین رسالت کے الزام میں گرفتار ایک شخص کو حوالات میں ایک پولیس اہلکار نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

پاکستان

میں توہین مذہب کے الزامات، بعض اوقات محض افواہیں ہوتی ہیں لیکن جنگل میں آگ کی طرح بڑی تیزی سے پھیل جاتی ہیں۔ ملک میں توہین مذہب کے الزامات میں ہجوم کے ہاتھوں ملزم کے قتل کے واقعات گرچہ غیرمعمولی نہیں ہیں لیکن پولیس کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل کے معاملات شاذ و نادر ہی پیش آتے ہیں۔

پاکستان

کے متنازعہ توہین رسالت کے قوانین کے تحت، مجرم پائے جانے پر موت کی سزا ہو سکتی ہے۔ اگرچہ حکام نے ابھی تک موت کی سزا پر عمل درآمد نہیں کیا ہے۔

ج ا ⁄ (اے پی، روئٹرز)

اس پر پڑھیں تمام خبریں Header Banner