اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 26 جولائی2024ء) وفاقی وزیر اطلاعات، نشریات، قومی ورثہ و ثقافت عطاء اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے بیانات تضادات کا مجموعہ ہیں، وہ اجلاسوں میں کچھ اور جلسوں میں کچھ اور کہتے ہیں، ہم ان کی مشکلات سمجھتے ہیں، انہیں اڈیالہ جیل میں بھی جوابدہ ہونا پڑتا ہے اور بانی پی ٹی آئی کو راضی بھی کرنا ہوتا ہے، جماعت اسلامی کے ساتھ مذاکرات کے لئے تیار ہیں، لیاقت باغ میں احتجاج پر اتفاق کے بعد اسلام آباد کی جانب مارچ کا کوئی جواز نہیں۔ یہ بات انہوں نے جمعہ کو یہاں وفاقی وزیر انجینئر امیر مقام کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے بیانات تضادات کا مجموعہ ہیں، اجلاسوں میں وہ تعاون کی یقین دہانی کراتے ہیں اور جلسوں میں کچھ اور کہتے ہیں، ہم ان کی مشکلات سمجھتے ہیں، انہیں اڈیالہ جیل میں بھی جواب دینا ہوتا ہے اور ویڈیو کلپ دکھا کر بانی چیئرمین پی ٹی آئی کو بھی راضی کرنا ہوتا ہے۔
(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ انجینئر امیر مقام پر 8 مرتبہ دہشت گردوں نے حملہ کیا جس کا انہوں نے دلیری سے مقابلہ کیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ طالبان کو واپس لانے والے آج کہتے ہیں کہ آپریشن نہیں ہونے دیں گے، دوسری طرف وہ کہتے ہیں کہ حالات ٹھیک کرلیں گے اور اجارہ داری قائم نہیں کرنے دیں گے، آخر ان کا منصوبہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے دور میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا، وہ دہشت گردوں کو واپس لائی۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں درخت کاٹنے کا سکینڈل بھی سامنے آیا ہے، خیبر پختونخوا کے صوبائی وزیر جنگلات اور محکمہ جنگلات کے حکام بٹگرام میں درخت کاٹنے میں ملوث ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ کو آج جلسے میں بتانا چاہئے تھا کہ انہوں نے ٹمبر مافیا کے لئے کیا اقدامات اٹھائے؟ عطاء اللہ تارڑ نے کہا کہ خیبر پختونخوا حکومت نے آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے حوالے سے طلباءکی تربیت کے لئے ایک جعلی ادارے کے ساتھ معاہدے پر دستخط کئے ہیں، اس ادارے میں موجود لوگوں کی کوئی مناسب ڈگری موجود نہیں اور نہ ہی ان کی آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے شعبہ میں کوئی مہارت ہے، ان کے پاس کوئی ایسا سیٹ اپ موجود نہیں جس کے تحت وہ طلباءکو تربیت دے سکیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایسی ٹریننگ ہے جس کا عوام اور بچوں کو فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا حکومت آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا جعلی معاہدہ اور کوانٹم ڈپلومہ کا آغاز کر کے ہزاروں طلباءکو بے وقوف بنا رہی ہے، اس کوانٹم آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے سینٹر سے وابستہ لوگوں کی کوئی مناسب سرٹیفیکیشن نہیں اور جو صاحب اس سینٹر کو چلا رہے ہیں وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے ایم آئی ٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے جبکہ ایم آئی ٹی کے پاس ان کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں کوانٹم آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے کورس کے لئے غیر قانونی طور پر معاہدے پر دستخط کئے گئے جبکہ تربیت فراہم کرنے والے ادارے کی مناسب سرٹیفیکیشن بھی موجود نہیں۔ اس ادارے سے متعلقہ تمام لوگوں کی سیلف ایوارڈنگ ڈگریاں ہیں، یہ غیر سنجیدگی کا مظاہرہ ہے، ایک طرف محکمہ جنگلات کے لوگ بٹگرام میں درخت کاٹ رہے ہیں اور دوسری جانب یہ پشاور میں بیٹھ کر ایسے جعلی معاہدے کر رہے ہیں جو تشویشناک ہیں جس کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے سوال کیا کہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے حوالے سے خیبر پختونخوا حکومت نے کس بنیاد پر معاہدہ کیا؟ وزیراعلیٰ کو اس حوالے سے آج جلسے میں جواب دینا چاہئے تھا۔ جماعت اسلامی کے دھرنے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ جماعت اسلامی کو لیاقت باغ میں جلسے کی اجازت دی گئی تھی اور انتظامیہ کے ساتھ اس حوالے سے ایس او پیز طے کئے گئے تھے، اس کے بعد اسلام آباد کی طرف پیش قدمی سمجھ سے بالاتر ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئے روز کوئی نہ کوئی گروہ سڑک بلاک کر دیتا ہے اور کئی میلوں تک ٹریفک جام ہوتا ہے، جڑواں شہروں کے عوام کو آنے جانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ایمبولینسوں کے لئے بھی مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایس او پیز اسی لئے طے ہوتے ہیں کہ آپ فلاں جگہ تک محدود رہیں۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کے قائدین ہمارے لئے قابل احترام ہیں، حافظ نعیم ایک زیرک اور دور اندیش سیاستدان ہیں، انہوں نے ہمیشہ دانشمندی کا مظاہرہ کیا ہے، حکومت ان کے ساتھ مذاکرات کے لئے ٹیم تشکیل دینے کو تیار ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف اکنامک ریفارمز ایجنڈے پر کاربند ہیں، ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن کی جا رہی ہے، معیشت کو دستاویزی شکل دی جا رہی ہے، لاکھوں نان فائلرز کو فائلرز بنایا گیا ہے جس کے ثمرات سامنے آ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حال ہی میں حکومت نے بجلی کے بلوں کی مد میں 50 ارب روپے کی سبسڈی دی، 200 یونٹ استعمال کرنے والے پروٹیکٹڈ اور نان پروٹیکٹڈ صارفین کے لئے یہ سبسڈی دی جا رہی ہے جس سے ان کے بجلی کے بلوں میں کمی ہوگی۔ یہ سبسڈی ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کر کے دی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مرتبہ پی ایس ڈی پی میں 200 ارب روپے کی کٹوتی کی گئی تاکہ عوام کو اضافی ٹیکس نہ دینا پڑیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ اکنامک ایجنڈے میں پرائیویٹائزیشن اور آئوٹ سورسنگ بھی شامل ہے، ہم اکنامک ریفارمز کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں، ہم عوام کی زندگیوں کو بہتر کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کے سینیٹرز بھی موجود ہیں، انہیں اس پر بات کرنی چاہئے تھی، ہمارے دروازے ہر وقت کھلے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی بقاءاور ترقی کے لئے ہم نے مل جل کر آگے بڑھنا ہے اور ہمارا ایجنڈا اس ملک کے مسائل کو ختم کرنا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ 2018 میں جب مسلم لیگ (ن) اقتدار چھوڑ کر گئی تو اس وقت مہنگائی 4 فیصد پر تھی، بجلی 8 روپے فی یونٹ تھی، شرح نمو 6 فیصد پر تھی، اس کے بعد اگلے چار سالوں میں ایک ترقیاتی کام نہیں کیا گیا، ایک شخص نے ملک کو قرضوں کے بوجھ تلے دبایا، 190 ملین کا سکینڈل، توشہ خانہ کی گھڑیاں فروخت کر کے انہوں نے ملک کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ معاشی اصلاحات کا ایجنڈا وزیراعظم شہباز شریف کی اولین ترجیح ہے۔ انہوں نے کہا کہ حافظ نعیم مدبر شخص ہیں، وہ ہماری رہنمائی کریں کہ موجودہ نظام میں رہتے ہوئے کیا بہتری لائی جا سکتی ہے۔ عطاء اللہ تارڑ نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت سے پہلے ملک ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑا تھا، لوگ باتیں کر رہے تھے کہ یہاں ایئر لائنز آنا بند ہو جائیں گی، بینکوں کے باہر رقوم نکلوانے کے لئے لوگوں کی لمبی قطاریں ہوں گی، ایل سیز بند تھیں، آئی ایم ایف کی ڈیل کو سبوتاژ کرنے کے لئے خط لکھے جا رہے تھے۔ روپیہ کی قدر اتنی غیر مستحکم تھی کہ ایکسپورٹرز پریشان تھے۔ انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم دور میں روپے کو مستحکم کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے گئے، ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا، سمگلنگ کے خلاف کریک ڈائون کیا جس میں آرمی چیف اور عبوری حکومت کا بڑا کردار ہے، جو بنیاد پی ڈی ایم دور میں رکھی گئی تھی، عبوری حکومت نے اسے آگے بڑھایا۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے معاشی اقدامات کی بدولت آج مہنگائی جو پچھلے سال 23 فیصد پر تھی، کم ہو کر 11 فیصد پر آ گئی ہے، عوام کو بجلی کے بلوں میں سبسڈی دی جا رہی ہے، دوست ممالک کے ساتھ ہمارے روابطے میں اضافہ ہوا ہے، سرمایہ کاری کے حوالے سے معاملات آگے بڑھے ہیں، آئی ایم ایف کے ساتھ مشکل معاملات کو طے کیا گیا، آئی ایم ایف معاہدے کے بعد سٹاک ایکسچینج میں تیزی آئی، معاشی اشاریے بہتر ہو رہے ہیں، ملک سے ریکارڈ آئی ٹی برآمدات ہوئیں، ان اقدامات میں موجودہ حکومت کی بڑی کاوشیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ جماعت اسلامی بھی اس میں اپنا حصہ ڈالے، ہم آپ کے ساتھ بیٹھنے کو تیار ہیں لیکن عام شہریوں کی زندگیوں کو اجیرن بنانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، ہم چاہتے ہیں کہ ایجی ٹیشن کی سیاست سے ہٹ کر آپ آئیں ہمارے ساتھ بیٹھ کر بات کریں، حکومت کی مذاکراتی ٹیم ان سے بات کرے گی اور ان کے تحفظات سنے جائیں گے اور ان کی جو بھی مطالبات ہوں گے کوشش کی جائے گی کہ اس پر آگے بڑھیں۔ انہوں نے کہا کہ جگہ جگہ دھرنوں سے شہریوں کی زندگی بھی مشکل ہوگی، جو لوگ اپنے روزگار کے لئے نکلتے ہیں ان کے لئے مشکلات پیدا ہوں گی۔ ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ڈی چوک میں کسی کو دھرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی کیونکہ وہاں حساس تنصیبات اور سرکاری عمارتیں ہیں، کار سرکار میں کسی صورت مداخلت کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ڈی چوک میں دھرنوں کے رواج کو اب ختم ہونا چاہئے۔ ایک اور سوال کے جواب میں وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ پرامن طریقے سے معاملات حل ہوں، ڈی چوک مکمل طور پر بند نہیں ہے، وہاں کچھ انٹری پوائنٹس بند ہیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عظمی بخاری کی جعلی ویڈیو کے معاملہ کی تحقیقات جاری ہیں، ایک سیاسی جماعت کے کارکن نے خاتون کے نام سے اکائونٹ بنا کر یہ غلیظ حرکت کی، اس معاملہ کی تحقیقات ہو رہی ہیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جو بھوک ہڑتال لنچ کے بعد شروع ہو اور ڈنر سے پہلے ختم ہو جائے وہ بھوک ہڑتال نہیں ہوتی، پنجاب سے اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ ہمارے بھوک ہڑتالی کیمپ میں کھانے پینے کا سامان نہیں جانے دیا جا رہا، ہمارا سامان روک لیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے پاس بھوک ہڑتالی کیمپ میں بندے اکٹھے نہیں ہو رہے، یہ لوگ پارلیمنٹ کے کیفے ٹیریا میں جا کر کھانا کھا رہے ہوتے ہیں، ان کے لیڈر نے کہا تھا کہ بھوک ہڑتال کرو، انہیں نہ بھوک ہے اور نہ ہڑتال۔