اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 نومبر 2024ء) یہ آگ بھارت کی ریاست اترپردیش کے شہر جھانسی کے ایک ہسپتال میں جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب لگی۔ حکام کے مطابق یہ آگ تیزی سے اُس وارڈ میں پھیل گئی، جہاں 55 شیر خوار بچوں کا علاج کیا جا رہا تھا۔
ایک مقامی اہلکار بمل کمار دوبے نے بتایا کہ 45 بچوں کو بچا لیا گیا ہے اور انہیں طبی امداد دی جا رہی ہے۔
فوری طور پر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ آگ کس چیز سے لگی؟ریاست کے نائب وزیر اعلیٰ برجیش پاٹھک نے ہفتے کے روز ہسپتال کا دورہ کیا اور متاثرہ بچوں کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔ انہوں نے متاثرہ خاندانوں کے لیے حکومتی تعاون اور مکمل تحقیقات کا وعدہ بھی کیا ہے۔
ان کا اس موقع پر کہنا تھا، ''ہم اس سانحے کے ذمہ داروں کی نشاندہی کرتے ہوئے سخت کارروائی کریں گے۔
(جاری ہے)
حکومت اس مشکل وقت میں اہل خانہ کے ساتھ کھڑی ہے۔‘‘جب فائر فائٹرز پہنچے تو وارڈ آگ کے شعلوں اور دھوئیں میں لپٹی ہوئی تھی جبکہ نوزائیدہ بچوں تک پہنچنے کے لیے امدادی کارکنوں کو کھڑکیوں کو توڑنا پڑا۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ آگ لگنے کے تقریباً 30 منٹ بعد ریسکیو آپریشن شروع ہوا، جس سے انخلاء کی کوششوں میں تاخیر ہوئی۔
اس حادثے نے ہسپتال کے حفاظتی اقدامات پر بھی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں فائر الارم نصب کیے گئے تھے لیکن والدین اور عینی شاہدین نے بتایا کہ وہ آگ کے دوران فعال ہی نہیں ہوئے۔ ہسپتال کے عملے نے دھویں اور آگ کے آثار دیکھ کر ہی ابتدائی کارروائی کی۔
اس آگ میں ہلاک ہونے والے ایک بچے کے والد نریش کمار کا کہنا تھا، ''اگر حفاظتی الارم کام کرتا، تو ہم امدادی کارروائیاں جلد کر سکتے اور مزید جانیں بچا سکتے تھے۔
‘‘اختر حسین، جن کے بیٹے کو بچا لیا گیا تھا اور اب ان کا نومولود بیٹا ملحقہ وارڈ میں زیر علاج ہے، نے اتفاق کیا کہ اگر ہسپتال میں حفاظتی پروٹوکول بہتر ہوتا تو اس سانحے کو روکا جا سکتا تھا۔
بھارت
میں آگ لگنے کے واقعات عام ہیں، جہاں عمارت سازوں اور رہائشیوں کی طرف سے قوانین اور حفاظتی اصولوں کی اکثر خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ ملک میں خراب دیکھ بھال اور آگ بجھانے کے مناسب آلات کی کمی بھی اموات کا باعث بنتی ہے۔ا ا / ش خ (ڈی پی اے، اے ایف پی)