اسلام آباد (خصوصی رپورٹ)ایران سے پیٹرولیم مصنوعات کی غیر قانونی تجارت، قومی خزانے کو کتنا نقصان پہنچ رہا ہے ؟ اس حوالے سے اہم انکشافات سامنے آئے ہیں ۔
تفصیلات کے مطابق ایران سے پائیدار بنیادوں پر پیٹرولیم مصنوعات کی سمگلنگ نہ صرف ملک کی ریفائنریز، آئل مارکیٹنگ کمپنیوں اور ایکسپلوریشن اینڈ پروڈکشن کمپنیوں کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ ریونیو کے لحاظ سے قومی خزانے کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔ مارچ-اپریل 2024 کے دوران سمگل شدہ پی او ایل مصنوعات کی آمد 4000 ایم ٹی یومیہ تک بڑھ گئی جیسا کہ اوگرا نے تصدیق کی ہے جس سے تیل کی صنعت کو ماہانہ 35.6 ملین ڈالر زکا نقصان ہو رہا ہے جس میں حکومت کو ہونے والے ریونیو میں ہونے والا نقصان بھی شامل ہے۔
ابھی پی او ایل کی مصنوعات کی آمد میں کچھ حد تک کمی آئی ہے، لیکن یہ اب بھی معقول جانب ہے اور ایران سے پیٹرولیم مصنوعات کی غیر قانونی تجارت کو روکنے کے لیے مزید حکومتی کوششوں کی ضرورت ہے۔ تیل صنعت کا دعویٰ ہے کہ ایچ ایس ڈی کی سمگلنگ ملک کی کل طلب کا تقریباً ایک تہائی ہے۔
او سی اے سی کے چیئرمین عادل خٹک نے"جنگ " کو بتایا کہ مارچ تا اپریل 2024 سے سمگلنگ کم ہوئی ہے لیکن اب بھی جاری ہے۔ اگر یہ سرحدی علاقوں تک محدود ہو تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں لیکن جب سمگل شدہ ڈیزل نہ صرف کراچی بلکہ پشاور تک پہنچتا ہے تو اس سے ملک اور ریفائنریوں کو نقصان ہوتا ہے۔ سمگلر غریب بلوچی نہیں بلکہ کروڑوں ڈالر کا دھندہ کرنے والا امیر مافیا ہیں۔ ہزاروں ٹرکوں کا بہاؤ، سب ایک ہی رنگ میں، بغیر کسی رکاوٹ کے ان لوگوں کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا جن کو اسے روکنا ہے۔