کراچی (ڈیلی پاکستان آن لائن)معروف افسانہ اور ناول نگار قرۃ العین حیدر کو اس دنیا سے رخصت ہوئے 17برس گزر گئے۔
قرۃ العین حیدر 20جنوری 1927ء کو علی گڑھ میں پیدا ہوئیں۔1947ء میں اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان چلی آئیں اور 1950ء میں وزراتِ اطلاعات و نشریات پاکستان سے بحیثیت انفارمیشن آفیسر وابستہ ہوگئیں۔
لندن میں قائم پاکستانی ہائی کمیشن سے بطور پریس اتاشی بھی منسلک رہیں۔ پاکستان ایئر لائن سے بھی کچھ عرصہ وابستگی رہی۔ 60ء کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں پاکستان کی شہریت ترک کرکے کچھ عرصہ برطانیہ رہنے کے بعد واپس ہندوستان لوٹ گئیں۔
اردو زبان کے 10 بڑے ناولوں میں سے ایک ناول ’آگ کا دریا‘ کو مانا جاتا ہے۔ انہوں نے یہ ناول پاکستان میں قیام کے دوران لکھا تھا۔
اِس ناول کو دنیائے ادب میں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی، اور بعد میں انہوں نے خود اِس ناول کا انگریزی ترجمہ بھی کیا۔
اِس کے بعد انہوں نے اپنا ایک ناول ’آخر شب کے ہمسفر‘ لکھا، جو انہیں بے حد پسند تھا، اِس ناول کو بھی اردو ناول نگاری میں ایک اہم ناول تصور کیا جاتا ہے۔
قرۃ العین حیدر نے کُل 8 ناول لکھے، جن میں ’میرے بھی صنم خانے‘، ’سفینہ غم دل‘، ’آگ کا دریا‘، ’آخر شب کے ہمسفر‘، ’کار جہاں دراز ہے‘، ’گردش رنگ چمن‘، ’چاندنی بیگم‘، ’شاہراہِ حریر‘ شامل ہیں۔
اُن کا ناول ’کار جہاں دراز ہے‘ تین حصوں پر مشتمل اور سوانحی ناول ہے، جس میں انہوں نے اپنی زندگی کے کئی ذاتی گوشوں پر بھی تفصیل سے بات کی ہے۔پاکستان اورہندوستان کے ادبی حلقوں میں قرۃ العین حیدر بے حد مقبول ہیں۔ان کی ادبی خدمات پر انہیں کئی اعزازات بھی دیے گئے۔
21 اگست 2007ء کو طویل علالت کے بعد انتقال ہوا۔