اسلام آباد (ویب ڈیسک) وفاقی دارلحکومت میں دو سال قبل مبینہ طور پر جج کی بیٹی کی کار کی ٹکر سے جاں بحق ہونے والے نوجوان کے لواحقین نے انصاف کے حصول کے لیے وفاقی دارالحکومت میں نیشنل پریس کلب کے باہر احتجاجی کیمپ لگا کر احتجاج کیا تو پولیس نے حادثے میں مرنے والے نوجوان کے والد رفاقت تنولی سمیت پانچ افراد کو گرفتار کرلیا۔
آج نیوز کے مطابق رفاقت تنولی نے اعلان کیا تھا کہ مطالبات نہ مانے گئے تو ڈی چوک کا رخ کیا جائے گا،اسلام آباد پولیس کی جانب سے نیشنل پریس کلب پر موجود مظاہرین پر آنسو گیس کی شیلنگ بھی کی گئی، جس سے علاقہ مکین پریشان ہوگئے۔مظاہرین کی جانب سے دو سال قبل کار حادثے میں شکیل تنولی کی ہلاکت کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔
پولیس حکام کی جانب سے جاری بیان کے مطابق 80 سے 90 مظاہرین نیشنل پریس کلب کے باہر جمع تھے اور ٹائر جلا کر سڑک بلاک کردی تھی۔پولیس حکام کے مطابق پولیس نے مذاکرات کئے مگر مظاہرین ریڈزون جانے کے لئے بضد تھے، مظاہرین نے قانون ہاتھ میں لیتے ہوئے ڈی چوک کی طرف مارچ کرنا شروع کردیا، پولیس کے روکنے پر مظاہرین نے دھکم پیل شروع کردی۔
حکام نے بتایا کہ پولیس نے مظاہرین کو ریڈ زون جانے سے روک لیا ہے اور چھ مشتعل افراد کو گرفتار کرکے تھانے منتقل کردیا ہے۔پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ریڈ زون میں ہر قسم کے احتجاج اور مظاہرے پر پابندی ہے، کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔
انگریزی اخبار ڈان کے مطابق 2022 میں مبینہ طور پر لاہور ہائیکورٹ کے جج کی بیٹی کی اسپورٹس گاڑی کی ٹکر سے ایکسپریس وے پر سوہان پل کے قریب شکیل تنولی اور اس کا دوست علی حسنین جاں بحق ہوگئے تھے۔ واقعہ آدھی رات کو تیزی رفتاری کے باعث پیش آیا جس کے بعد سے کیس کی تفتیش تعطل کا شکار ہے۔عدالتی ریکارڈ میں دستیاب تفصیلات کے مطابق 8 جون کو شکیل تنولی اور ان کے ساتھی حسنین علی آدھی رات کو گھر جا رہے تھے کہ انہیں مبینہ طور پر ایک خاتون ڈرائیور نے سپورٹس گاڑی کی ٹکر مار دی تھی۔