اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن )معروف بیوروکریٹ کیپٹن (ر) محمد محمود کو دوبارہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں بطور آفیسر آن سپیشل ڈیوٹی تعینات کر دیا گیا ۔
یہ اقدام بعض لانگ ڈسٹنس انٹرنیشنل (ایل ڈی آئی) کمپنیوں پر جانبداری کے الزامات کے درمیان سامنے آیا ہے جو تقریباً 76 ارب روپے کی ادائیگیوں میں نادہندہ ہیں۔وزارت آئی ٹی اور ٹیلی کمیونیکیشن اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے ذرائع کے مطابق محمود نے آئی ٹی وزارت کے سیکرٹری کے طور پر اپنے دور میں پالیسی گائیڈ لائنز جاری کیں جن سے مبینہ طور پر ڈیفالٹ ایل ڈی آئی آپریٹرز کو فائدہ پہنچا۔ان رہنما خطوط نے آپریٹرز کو 30 سہ ماہی اقساط میں زیر التوا اصل واجبات کا صرف 50 فیصد ادا کرنے کی اجازت دی۔اندرونی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ یہ فیصلہ کچھ ایل ڈی آئی آپریٹرز پر رشوت کے بدلے بوجھ کو کم کرنے کے لئے کیا گیا تھا جس میں مبینہ طور پر دبئی میں ثالثی کی گئی تھی۔وزیر اعظم کے دفتر نے فوری کارروائی کرتے ہوئے محمود کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا ہے اور مبینہ طور پر تحقیقات جاری ہیں۔محمود کا کیریئر بدعنوانی کے متعدد سکینڈلز اور انکوائریوں سے متاثر ہوا، جس میں 2023 کا گندم درآمدی بحران بھی شامل ہے جس کی وجہ سے انہیں وزارت فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ کے انچارج ایڈیشنل سیکرٹری کے عہدے سے معطل کردیا گیا۔
محمود نے تصدیق کی کہ ان کی برطرفی ایل ڈی آئی آپریٹرز سے زیر التواواجبات کی وصولی سے متعلق تنازع کی وجہ سے ہوئی لیکن انہوں نے کسی غلط کام کی سختی سے تردید کی۔انہوں نے کہا کہ اگر کوئی ایل ڈی آئی کمپنی الزامات کے ساتھ سامنے آتی ہے تو وہ نتائج بھگتنے کے لئے تیار ہیں، محمود نے وضاحت کی کہ ایل ڈی آئی کی زیر التوا ادائیگیوں کا معاملہ 15 سال سے عدالت میں زیر التوا ہے۔اپنے دور میں انہوں نے تمام کمپنیوں کے درمیان 25.5 ارب روپے کی اصل رقم سرکاری خزانے میں واپس کرنے کے لئے ایک معاہدے کی سہولت فراہم کی لیکن پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ذاتی مفادات نے حکومت کو طویل عرصے سے واجب الادا رقم کی وصولی سے روکنے کے لئے تنازع کھڑا کیا، توقع ہے کہ جاری تحقیقات سے محمود کے خلاف الزامات پر مزید روشنی پڑے گی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایک ہی افسر کو پہلے بھی مختلف سکینڈلز (جیسے رنگ روڈ سکینڈل وغیرہ) میں ہٹایا گیا تاہم ہر بار وہ زیادہ طاقتور تقرری کے ساتھ واپس آئے۔