ملک کے اعلیٰ سیکیورٹی حکام نے کہا ہے کہ فوج آئین کی وفادار ہوتی ہے، اس کی کوئی سیاسی سوچ نہیں ہوتی جب کہ انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید ذمے دار عہدے پر بیٹھ کر مخصوص سیاسی جماعت کو اوپر لا رہے تھے۔
سیکیورٹی حکام نے کہا کہ فیض حمید پر الزام ہے کہ وہ سیاسی ایما پر کام کر رہے تھے، سابق افسر کا کورٹ مارشل ہو رہا ہے۔
سیکیورٹی حکام کا کہنا تھا کہ فوج آئین کی وفادار ہوتی ہے، اس کی کوئی سیاسی سوچ نہیں ہوتی، بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھارتی فوج کو سیاسی بنایا اور مخالفین کے خلاف کارروائی کی، ہٹلر بھی جرمنی کی فوج کو سیاسی سوچ کے تحت چلا رہا تھا اور مخالفین کے خلاف کارروائی کی۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی فوج کے ساتھ بھی ایسا ہی کرنے کی واردات کی گئی، فیض حمید بھی ذمےدارعہدے پر بیٹھ کر مخصوص سیاسی جماعت کو اوپر لا رہے تھے، فوج کا حکومت میں برسر اقتدار سیاسی جماعت سے غیر سیاسی تعلق ہوتا ہے، ملک کی تمام سیاسی جماعتیں قابل احترام ہیں۔
سیکیورٹی حکام نے بتایا کہ افغانستان میں ایک درجن سے زیادہ دہشت گرد تنظیمیں ہیں، دہشت گرد افغانستان سے آکر حملے کرتے ہیں، فتنہ الخوارج سے کسی قسم کی بات چیت نہیں ہوگی۔
سیکیورٹی حکام نے کہا کہ ماضی میں ایک سیاسی جماعت نے فسادیوں سے بات چیت کی، اب بھی ایسا ہی کہا جا رہا ہے، پچھلی بات چیت کے تجربے سے پتا چل گیا کہ فتنہ الخوارج سے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دہشتگردوں کی افغانستان میں ٹرینگ ہو رہی ہے، افغانستان میں عبوری حکومت سے بات چیت کر رہے ہیں کہ دہشت گردوں کو سنبھالیں، دہشتگردوں کے خلاف روزانہ سو سے زیادہ انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنز کررہے ہیں۔
سیکیورٹی حکام نے عزم ظاہر کیا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ ہر صورت جیتیں گے، لکی مروت میں کریمنل گینگز کام کر رہے ہیں، جب کریمنل گینگز کےخلاف کارروائی کرتے ہیں تو وہ مظاہرے کرواتے ہیں، لکی مروت میں فوج صوبائی حکومت کی درخواست پر ذمےداری انجام دے رہی ہے، صوبائی حکومت جب کہے گی تو فوج لکی مروت سے واپس چلی جائے گی۔
حکام کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع میں امن جلد بحال ہوگا، دہشتگروں کو پکڑتے ہیں، عدالتیں عدم ثبوت کا کہہ کر چھوڑ دیتی ہیں، دہشت گردی کےخاتمے کے لیے کریمنل جسٹس سسٹم کو ٹھیک اور قانون کےنفاذ کو یقینی بنانا ہوگا۔
واضح رہے کہ 12 اگست کو نجی ہاؤسنگ اسکیم ٹاپ سٹی کے معاملے میں مداخلت سمیت پاکستان آرمی ایکٹ کی دیگر خلاف ورزیوں پر انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو فوجی تحویل میں لے کر ان کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل شروع کر دیا گیا تھا۔
13 اگست کو وزیر دفاع خواجہ آصف نے دعویٰ کیا تھا کہ سانحہ 9 مئی کے حالات و واقعات بھی فیض حمید کی طرف اشارہ کر رہے ہیں، مگر وہ اکیلے ملوث نہیں تھے۔
15 اگست کو سابق وزیر اعظم عمران خان نے دعویٰ کیا کہ سابق آرمی چیف جنرل (ریٹائرڈ) قمر جاوید باجوہ نے نواز شریف اور شہباز شریف کے کہنے پر فیض حمید کو ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے ہٹایا جس پر میری سابق سپہ سالار سے سخت تلخ کلامی ہوئی تھی۔
15 اگست کو پاک فوج کے شعبہ ابلاغ عامہ (آئی ایس پی آر) نے کہا تھا کہ فیض حمید کے کورٹ مارشل کے سلسلے میں مزید 3 ریٹائرڈ فوجی افسران کو تحویل میں لےلیا گیا، بعض ریٹائرڈ افسران اور ان کے ساتھیوں کے خلاف مزید تفتیش جاری ہے۔
آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ تینوں افسران کو تحویل میں لیا گیا، تینوں ریٹائرڈ افسران ملٹری ڈسپلن کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ آئی ایس پی آر کے بیان میں تینوں افسران کے نام اور رینک سے متعلق کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی گئی تھیں، تاہم ذرائع نے دعویٰ کیا تھا کہ فوجی تحویل میں لیے گئے ریٹائرڈ افسران میں 2 ریٹائرڈ بریگیڈیئر اور ایک ریٹائرڈ کرنل شامل ہیں۔