سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس منصورعلی شاہ نے سیکرٹری سپریم کورٹ کمیٹی کو خط لکھ دیا۔ خط میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ صدارتی آرڈیننس پرسپریم کورٹ کا فل کورٹ بینچ بنایا جائے یا انتظامی سائیڈ پرفل کورٹ اجلاس بلایا جائے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے خط میں ترمیمی آرڈیننس پر تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ آرڈیننس اجرا کے چند ہی گھنٹوں بعد پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کی دوبارہ تشکیل کردی گئی، ترمیمی آرڈیننس آنے کے بعد بھی سینیئرترین ججز کو کمیٹی اجلاس میں شرکت کرنی چاہیے تھی۔
خط میں کہا گہا ہے کہ کوئی وجہ بتائے بغیر جسٹس منیب اختر کو کمیٹی سے ہٹادیا گیا، جسٹس منیب اختر کو کمیٹی سے ہٹانے کی وجوہات بھی نہیں بتائی گئی، اپنی مرضی کا ممبرکمیٹی میں شامل کرکے من مرضی کی گئی جو غیرجمہوری رویہ اور ون مین شو ہے۔
خط میں ان کا کہناتھاکہ چیف جسٹس کی ذات میں انتظامی معاملات کا ارتکاز غیر جمہوری اور عدالتی شفافیت کےاصول کے برعکس ہے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کمیٹی میں واپسی کی تین شرائط رکھ دیں اور خط میں کہا کہ جب تک فل کورٹ اس آرڈیننس کی آئینی حیثیت کا جائزہ نہیں لیتی کمیٹی میں نہیں بیٹھوں گا یا جب تک فل کورٹ آرڈیننس کے ذریعے ترامیم پر عملدرآمد کا فیصلہ نہیں کرتی کمیٹی میں نہیں بیٹھوں گا یا پھر جب تک چیف جسٹس سابقہ کمیٹی بحال کرتے ہوئے جسٹس منیب اخترکوشامل نہیں کرتے کمیٹی میں نہیں بیٹھوں گا۔
خط میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ صدارتی آرڈیننس پرسپریم کورٹ کا فل کورٹ بینچ بنایا جائے یا انتظامی سائیڈ پرفل کورٹ اجلاس بلایا جائے۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت ججز کمیٹی کے اجلاس ہوا، جسٹس منصور علی شاہ ججز کمیٹی میں شرکت کیے بغیرچلے گئے۔ ذرائع نے بتایاکہ جسٹس منصور علی شاہ نے ترمیمی آرڈیننس پر تحفظات کا اظہار کیا۔