اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن)وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ آئین کی کسی بھی شق کو معطل نہیں کرسکتی ہے۔
نجی ٹی وی سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ 2006 ء میں محترمہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف نے چارٹرڈ آف ڈیموکریسی سائن کیا۔
انہوں نے کہا کہ اس معاہدے میں سیاسی جماعتوں نے پاکستان میں آئینی عدالت قائم کرنے پر اتفاق کیا، اتفاق کرنے والوں میں بانی پی ٹی آئی کی جماعت پی ٹی آئی بھی شامل تھی۔
وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ یہ کوئی انہونی بات نہیں، دنیا میں اس وقت 70 سے زیادہ ممالک میں آئینی عدالتیں قائم ہیں، یہ نہ عدلیہ پر حملہ ہے اور نہ اس کی آئین میں کوئی پابندی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا اپنا دائرہ کار ہے، عدالت عظمیٰ کا کام ہے کہ جہاں آئین میں ابہام ہو اس کی تشریح کرے۔
احسن اقبال نے یہ بھی کہا کہ سپریم کورٹ کا آئین میں ایسا کوئی کردار نہیں کہ وہ آئین کو تبدیل یا اس میں ترمیم کرے، آئین میں ترمیم کرنا یا نئی شق ڈالنا صرف پارلیمنٹ کا کام ہے۔ سپریم کورٹ اگر ایسا کوئی عمل کرتی ہے تو وہ اپنے دائرہ کار سے تجاوز کرتی ہے، عدالت عظمیٰ آئین کی کسی شق کو معطل نہیں کرسکتی۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں پر آئین میں ترمیم کا ایک نیا اقدام کیا ہے، صرف ایک سیاسی جماعت کو فائدہ دیا گیا، اس پر سوالیہ نشان تو اٹھیں گے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہم سپریم کورٹ اور تمام عدالتوں کا احترام کرتے ہیں، عدالتوں کو اس دائرے کے اندر کام کرنا چاہیے جو آئین میں ان کےلیے مختص ہے۔
احسن اقبال نے کہا کہ بانی پی ٹی ائی کے دورمیں جب فیٹف پر قانون سازی کی گئی تو کیسے اپوزیشن کو بلڈوز کیا گیا، ہم نے آئینی ترامیم والے معاملے پر تمام سیاسی جماعتوں کو وقت دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن اپنی من مرضی کے فیصلے چاہتی ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اداروں میں کچھ ایسے لوگ تھے جو پی ٹی آئی کی پشت پناہی کررہے تھے، حال ہی میں کچھ لوگوں کے خلاف ایکشن بھی ہوا ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ اسی طرح عدلیہ کے اندر کچھ ایسے چیف جسٹس گزرے ہیں، جن کے فیصلوں سے سیاسی بو آتی تھی، پاکستان کو آئینی عدالت کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ متنازع فیصلے نہ ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی اس پر معافی مانگی گئی، نواز شریف کو نااہل کیا گیا اس پر شرمساری ہوئی، اس طرح کے فیصلے عدلیہ کے عزت و وقار کا باعث نہیں بنتے، آئینی عدالت ضرور بننی چاہیے تاکہ عدلیہ غیرضروری تنازعات سے بچ سکے۔