05 اکتوبر ، 2024
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق نے سیکریٹری داخلہ کو فوری اقدامات کرکے وفاقی دارالحکومت کے حالات معمول پر لانے کی ہدایت کردی اور ریمارکس دیے کہ آپ حکومت ہیں، آپ کا کام برابری کے حقوق یقینی بنانا ہے۔
عدالت عالیہ میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا اسلام آباد میں احتجاج رکوانے کےلیے دائر درخواست پر چیف جسٹس عامر فاروق نے سماعت کی۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سیکریٹری صاحب آپ نے پورا شہر کیوں بند کیا ہوا ہے؟ جس پر سیکریٹری داخلہ خرم علی آغا نے بتایا کہ ملائیشیا کے وزیراعظم گزشتہ روز اسلام آباد میں موجود تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسلام آباد میں احتجاج کےلیے قانون موجود ہے، تین چار دن میں اہم سعودی وفد بھی پاکستان پہنچ رہا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس ہے، یہ اجلاس ہونا پاکستان کےلیے باعث فخر ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ آپ حکومت ہیں، آپ کا کام برابری کے حقوق یقینی بنانا ہے، سرکار کا کام ہے کہ شہریوں کے برابر کے حقوق کو یقینی بنائے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے سیکریٹری داخلہ کو فوری اقدامات کر کے حالات معمول پر لانے کی ہدایت کردی۔
جسٹس عامر فاروق نے سیکریٹری داخلہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کسی کا یہ حق نہیں وہ سڑک کے درمیان اکٹھے ہوجائیں اور میرا راستہ بند کردیں۔ ان کو مناسب جگہ دیں جہاں احتجاج کریں یا آپ نے جو مرضی کرنا ہو کر لیں، یہ آپ کا کام ہے اور آپ نے ہی کرنا ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے یہ بھی کہا کہ احتجاج بنیادی حق ہے۔ اس وقت شہر ایسا لگ رہا ہے حالت جنگ میں ہے۔ شہر میں کرفیو کی صورتحال ہے، موبائل سروس بند ہے، کوئی ایمرجنسی میں کسی سے رابطہ نہیں کر سکتا۔
جسٹس عامر فاروق نے یہ بھی کہا کہ آپ مناسب اقدامات کریں اور اسلام آباد کو کلیئر کریں۔ وفود آرہے ہیں، کوئی نامناسب واقعہ ہوتا ہے تو وزارتِ داخلہ ذمہ دار ہوگی۔
عدالت عالیہ کے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے فوج بھی طلب کی ہے؟ آرمڈ فورسز سول حکام کی معاونت کرتی ہیں؟ دفعہ 144 نافذ ہے تو یقینی بنائیں کہ اس پر مکمل عملدرآمد ہو۔
سیکریٹری داخلہ نے عدالت کو بتایا کہ وزیرِداخلہ نے بڑی نرمی سے درخواست کی لیکن وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا بضد ہیں، وہ بھاری حکومتی مشینری کے ساتھ آ رہے ہیں۔ بہت سی سرکاری مشینری کو نقصان پہنچایا گیا ہے، جلا دیا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ احتجاج کرنے والے بھی پاکستانی شہری ہیں، آپ نے ان کی جانوں کا بھی تحفظ کرنا ہے، ان کے اقدامات سے کسی اور کی جان کو خطرہ ہوتا ہے تو وہ غیرقانونی ہے۔
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ آپ کے پاس بہت مشکل ٹاسک ہے لیکن آپ بہت اہم پوزیشن پر ہیں۔ وزیر داخلہ کو بتادیں کہ آپ نے یہ بیلنس رکھ کر چلنا ہے۔