برلن (ڈیلی پاکستان آن لائن)سائنسدانوں کی طرف سے کی گئی ایک تحقیق میں صحافیوں کے تحریر کردہ متن اور مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ متن کی فہمی کا تقابلی جائزہ لیا گیا۔
اس بات کا تعین ہوا ہے کہ مصنوعی ذہانت سے تحریر کردہ خبروں کو قارئین کے لیے سمجھنا زیادہ مشکل ہے۔
جرمنی کی لڈوگ میکسی میلین یونیورسٹی کے سائنسدانوں کی طرف سے کی گئی ایک تحقیق میں صحافیوں کے تحریر کردہ متن اور مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ متن کی فہمی کا تقابلی جائزہ لیا گیا۔
سائنسی جریدے جرنلزم: تھیوری، پریکٹس اور کرٹیسزم میں 22 اکتوبر کو شائع ہونے والی اس تحقیق میں برطانیہ میں ویب سائٹس پر باقاعدگی سے خبروں کا مطالعہ کرنے والے کم از کم 3000 افراد نے حصہ لیا ۔
شرکاء نے ، نصف مصنوعی ذہانت سےاور نصف صحافیوں کی طرف سے تحریر کردہ 24 متنوں میں سے ایک کا جائزہ لیا۔
اس تحقیق کی سرکردہ مصنفہ سینا تھسلر کوردونوری نے کہا ہے کہ قارئین کو مصنوعی ذہانت کے ساتھ تحریر کردہ خبریں کم سمجھ میں آئی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ کچھ مصنوعی ذہانت کے متن کو صحافیوں نے درست کیا تھا، لیکن نتیجہ وہی رہا۔
بتایا جاتا ہے کہ مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ متن کو سمجھنا زیادہ مشکل ہونے کی ایک وجہ الفاظ کا انتخاب ہے۔
قارئین کو ان عبارتوں میں سمجھنے میں دقت پیش آنے والےالفاظ اوراظہارِ بیان کا سامنا کرنے سے منفی ا ثرات مرتب ہوئے ہیں۔
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ شرکاء نے مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ متن میں اعداد و شمار اور ڈیٹا کو پیش کیے جانے کے طریقہ کار کو نا پسند کیا ہے۔
دوسری طرف قارئین روانی، ساخت اور اسلوب کے لحاظ سے متن کو تسلی بخش پایا ہے۔
اس تحقیقی منصوبے کے سربراہ پروفیسر نیل تھورمین کا کہنا ہے کہ صحافیوں اور ٹیکنالوجی کے ماہرین کو مصنوعی ذہانت سے معاون متن کو تشکیل دیتے وقت ناقابل فہم الفاظ کے استعمال سے گریز کریں۔