فوجداری نظرثانی درخواست نمبر 2 بابت 2024ء میں سپریم کورٹ نے 24 جولائی 2024ء کو فیصلہ سنایا

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 27 جولائی2024ء) عدالت عظمیٰ نے واضح کیا ہے کہ فوجداری نظرثانی درخواست نمبر 2 بابت 2024ء میں سپریم کورٹ نے 24 جولائی 2024ء کو فیصلہ سنایا۔ فیصلہ اردو میں لکھا گیا ہے تاکہ عوام الناس بھی اسے آسانی سے سمجھ سکیں۔جمعہ کو سپریم کورٹ کے افسر تعلقات عامہ کے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ فیصلے میں واضح الفاظ میں کہا گیا ہے کہ حضرت محمدؐ کی ختم نبوت پر کامل اور غیرمشروط ایمان کے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہوتا اور یہ بھی صریح الفاظ میں کہا گیا ہے کہ خود کو احمدی کہنے والے دونوں گروہ دین و شریعت اور آئین و قانون کے مطابق غیرمسلم ہیں۔ خود کو احمدی کہنے والوں کو عوامی یا نجی سطح پر مسلمانوں میں اپنا عقیدہ پھیلانے کا حق نہیں ہے اور حکومت پنجاب کی نظرثانی درخواست قبول کرتے ہوئے اس بات کی تفصیلی وضاحت کردی گئی ہے۔

(جاری ہے)

نظرثانی درخواست کی سماعت کے موقع پر عدالت نے پاکستان کے مستند علمی اداروں سے رہنمائی طلب کی تھی اور ان کے علاوہ افراد کو بھی عدالت میں اپنے تحریری دلائل دینے کا موقع فراہم کیا۔

عدالت نے پارلیمان کی کمیٹی کی کارروائی کا بھی جائزہ لیا اور کمیٹی کے ارکان بشمول مفتی محمود، مولانا ظفر احمد انصاری، مولانا عبدالحق، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا عبدالمصطفیٰ ازہری، مولانا سید محمد علی رضوی، مولانا صدر الشہید، مولانا نعمت اللہ، پروفیسر غفور احمد اور دیگر نامی گرامی اہل علم کے ریکارڈ پر موجود بیانات سے بھی رہنمائی حاصل کی اور اس کے علاوہ مولانا سیدابو الاعلی مودودی اور دیگر ممتاز اہل علم کی تحریرات پر بھی غور کیا جن کا ذکر فیصلے میں ہے۔ فیصلے میں وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کے پہلے دیئے ہوئے فیصلوں کی پابندی بھی کی گئی۔ اس سب کے باوجود ایسے افراد جو بارہا موقع فراہم کئے جانے کے باوجود عدالت کی معاونت کیلئے پیش نہیں ہوئے کی جانب سے اب بے بنیاد الزام تراشی کاآغاز کیا گیا ہے اوروہ اپنی آراء کوجید علمائے کرام کے مو قف سے زیادہ معتبر بنا کر پیش کر رہے ہیں جو بہت ہی غیرمناسب ہے۔آئین شہریوں کو اظہار رائے کی آزاد ی کا حق دیتا ہے مگر اسے اسلام کی عظمت یا ملک کی سالمیت کو نقصان پہنچانے کیلئے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ فیصلے کو غلط مفہوم پہنا کر پروپیگنڈا کرنا ملک و قوم کی خدمت نہیں بلکہ فساد فی الارض کے زمرے میں آتا ہے جس کی اسلام نے ممانعت کی ہے۔ آئین اور قانون میں بھی ایسی ہنگامہ آرائی کی اجازت نہیں ہے۔

اس پر پڑھیں قومی خبریں Header Banner