اسلام آباد ( اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 27 نومبر 2024ء ) سینئر صحافی کے مطابق پی ٹی آئی کیخلاف کریک ڈاون کی 25 فیصد تفصیلات بھی سامنے نہیں آئیں۔ تفصیلات کے مطابق اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی وتجزیہ کار منیب فاروق نے بتایا کہ رینجرز اہلکاروں کی شہادت کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ کوئی لحاظ نہیں رکھا جائے گا، پی ٹی آئی کیخلاف کریک ڈاون کی 25 فیصد تفصیلات بھی سامنے نہیں آئیں۔ بہت شدت سے اور بہت زور سے ریاست نے ردعمل دیا، بہت کچھ ایسا ہے جو نہ رپورٹ ہوا نہ ہی رپورٹ ہو سکتا ہے، جتنی طاقت ریاست کے پاس ہوتی ہے وہی کچھ سلسلہ ہوا ہے، فیصلہ کیا گیا ہے کہ دوبارہ احتجاج کرنے کی کوشش کی گئی تو اس سے بھی زیادہ شدت سے سختی سے ردعمل دیا جائے گا۔ پاکستان کی مقتدرہ اور تحریک اںصاف کے درمیان خلیج بہت زیادہ ہے، یہ خلیج اب مزید بڑھ چکی ہے۔
(جاری ہے)
دوسری جانب سینئر صحافی حامد نے وائس آف امریکا سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے تحریک انصاف کے احتجاج کیخلاف ہونے والے کریک ڈاون سے متعلق اہم انکشافات کیے۔ حامد میر نے بتایا کہ 26 نومبر کو جب تحریک انصاف کے مظاہرین ڈی چوک پہنچ گئے تو وہاں کنٹینرز پر موجود رینجرز اہلکاروں نے سلام کیا اور وہاں سے اسلحہ اٹھا کر چلے گئے۔ تب سوشل میڈیا پر دنیا تک خبریں پہنچیں کہ پی ٹی آئی والوں نے ڈی چوک پر قبضہ کر لیا، لیکن پاکستانی میڈیا پر یہ خبریں نہیں چلیں، اس کا مطلب ہے کہ میڈیا دباو میں تھا اور سے حقائق رپورٹ کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ حامد میر نے مزید انکشاف کیا کہ 3 ساڑھے 3 گھنٹے اتنی شدید فائرنگ اور شیلنگ کی گئی جو میں نے اسلام آباد کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ مجھے ایسے لگ رہا تھا جیسے افغانستان، لبنان یا فلسطین میں ہوں۔ میڈیا کی ساکھ تباہ ہو گئی میڈیا کو حقائق رپورٹ کرنے کی اجازت نہیں مل رہی تھی۔ ریاستی ادارے جن کے بارے میں ہم بڑا فخر کرتے ہیں کہ کا ڈسپلن بڑا مثالی ہے، میرے سامنے کی بات ہے کہ پی ٹی آئی والے جب ڈی چوک پہنچے تو رینجرز والے سلام کر کے وہاں سے چلے گئے تھے، بعد وہاں کوئی اور فورس آئی جس نے آ کر فائرنگ کی، میرے سامنے گولیاں چلائی گئیں۔ افسوسناک بات ہے کہ رینجرز کے جوان شہید ہوئے، پولیس والے اور عام لوگ بھی شہید ہوئے۔ حامد میر نے کہا کہ کریک ڈاون کے بعد کچھ نوجوان سے مجھ سے بات کی کہ ہم دوبارہ واپس آئیں گے، جو کچھ ہمارے ساتھ کیا گیا وہی کچھ ہم بھی کریں گے۔ تحریک انصاف کے ورکز بہت چارجڈ تھے جو چاروں صوبے سے آئے ان کی اکثریت غیر مسلحہ تھی۔ ان لوگوں کے پاس کوئی اسلحہ نہیں بلکہ ہاتھوں میں پانی کی بوتلیں یا کچھ کے پاس غلیلیں تھیں۔ کل جو کچھ ہوا اس سے خدشہ ہے کہ کچھ لوگ پارٹی چھوڑ کر شدت پسندی کی جانب جا سکتے ہیں۔ اس دن سے ڈریں جب ان لوگوں میں سے ایک یا 2 فیصد نے بھی وہی کچھ کرنے کا فیصلہ کر لیا جو کل ان کے ساتھ کیا گیا۔ اس لیے حکومت کے وزراء جو بڑی باتیں کر رہے ہیں وہ تاریخ سے سبق سیکھیں۔ حامد میر نے مزید کہا کہ آنے والے دنوں میں مجھے مزید مسائل نظر آ رہے ہیں۔ 26 نومبر کو گولیاں چلیں اور لوگ واپس چلے گئے، لیکن مجھے لگتا ہے یہ لوگ واپس آئیں گے، کیسے آئیں گے یہ نہیں معلوم لیکن بہتر ہے حکومت اور ریاستی ادارے ضد چھوڑ دیں اور مذاکرات کریں۔