کراچی(ڈیلی پاکستان آن لائن ) تجزیہ نگار سید محمد عسکری نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان برطانوی اور یورپی امتحانی بورڈز کیلئے سونے کی چڑیا بن گیا ہے۔
ملک کے سرکاری امتحانی بورڈز اور تعلیمی اداروں کی غیر تسلی بخش کارکردگی کے باعث پاکستان کے2 لاکھ سے زائد طلبہ ان برطانوی اداروں میں انرول ہیں اور ہر سال ان کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، یہ ادارے پاکستان کے ناقص امتحانی نظام کا فائدہ اٹھا کر ہر برس اربوں روپے بیرون ملک منتقل کررہے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ کیمبرج کے امتحانی پرچے مسلسل لیک ہونے اور کینسل ہونے کی وجہ سے لوگ اب دوسرے غیر ملکی بورڈز کا رخ کر رہے ہیں۔کیمبرج انٹرنیشنل، ایڈکسل ( پیرسن)، لرننگ ریسورس نیٹ ورک (ایل آر این)، انٹرنیشنل بیکو لوریٹ کے بعد آکسفورڈ اے کیو اے کو بھی انٹر بورڈز چیئرمین کوآرڈینیشن کمیشن (آئی بی سی سی) نے پاکستان میں کام کرنے کا این او سی دیا ہے جو پاکستان میں اے اور او لیول کے امتحانات لے گا جبکہ دو مزید برطانوی امتحانی بورڈز NCUK اور QUALIFI نے بھی آئی بی سی سی سے پاکستان میں کام کرنے کی اجازت مانگ لی ہے۔اگر چہ ایل آر این برطانیہ میں رجسٹرڈ ہے تاہم اس کے مالک برطانوی نڑاد پاکستانی ہیں۔پاکستان میں اس وقت نجی شعبہ میں دو امتحانی بورڈز آغا خان یونیورسٹی امتحانی بورڈ اور ضیاالدین یونیورسٹی امتحانی بورڈ کام کررہے ہیں تاہم دونوں بورڈز میں طلبہ کی انرولمنٹ ایک لاکھ سے بھی کم ہے جبکہ پاکستان کے سرکاری تعلیمی بورڈز کی تعداد 34 ہے جن میں سندھ کے 8 تعلیمی بورڈز بھی شامل ہیں جہاں میٹرک اور انٹر کے 60 لاکھ سے زائد طلبہ ہر سال امتحانات دیتے ہیں۔
فیڈرل بورڈ آف اسلام آباد کے قواعد و ضوابط کے باوجود غیر ملکی اداروں کو اپنا نصاب پڑھانے کے لئے حکومتی منظوری لینے کی ضرورت ہوتی ہے، بہت سے غیر ملکی امتحانی ادارے ان قوانین کو نظرانداز کرتے ہیں۔ان کا مواد، جو اکثر پاکستانی ثقافتی اقدار کے ساتھ غلط طور پر منسلک ہوتا ہے، مقامی حکام کی طرف سے جانچ یا منظوری نہیں دی جاتی ہے۔نتیجہ قیمتی زرمبادلہ کا مسلسل اخراج اور بیرونی تعلیمی نظاموں پر بڑھتا ہوا انحصار ہے جو طلبا کی وسیع آبادی کو پیچھے چھوڑتے ہوئے چند اشرافیہ کو پورا کرتا ہے۔